ایک قیامت کی خراشیں تیرے سر پہ سجیں

ایک قیامت کی خراشیں تیرے سر پہ سجیں
ایک محشر میرے اندر سے اٹھا تیرے بعد
ایک قیامت کی خراشیں تیرے سر پہ سجیں
ایک محشر میرے اندر سے اٹھا تیرے بعد
ترس جاتی ہیں آنکھیں تیرے دیدار کو جاناں
کچھ لمحات دیدار کے عنایت کر مجھے
درد منت کش دوا نہ ہوا
میں نہ اچھا ہوا برا نہ ہوا
جمع کرتے ہو کیوں رقیبوں کو
اک تماشا ہوا گلہ نہ ہوا
ہم کہاں قسمت آزمانے جائیں مزید پڑھیں […]
کبھی بیٹھ میرے سامنے تجھے حال دل سنائے ہم
تیرے بن کیسے تڑپتے ہیں یہ بھی تجھے بتلائے ہم
لکھاری کو اسکے لکھے کی گر داد نہیں ملتی
تو اسکو اور لکھنے کو کوئ بات نہیں ملتی
ڈان پاجی
سوال یہ ہے جو چیز جیسے دکھتی ہے
اسے ویسے ہی پیش کیوں نہ کیا جائے
اپنے اندر دبی آوازوں کو
باہر کیوں نہ لایا جائے
راہ سے بھٹک گئے ہیں انسان مزید پڑھیں […]