درد منت کش دوا نہ ہوا

mirza ghalib ghazal

درد منت کش دوا نہ ہوا
میں نہ اچھا ہوا برا نہ ہوا

جمع کرتے ہو کیوں رقیبوں کو
اک تماشا ہوا گلہ نہ ہوا

ہم کہاں قسمت آزمانے جائیں
تو ہی جب خنجر آزما نہ ہوا

کتنے شیریں ہیں تیرے لب کہ رقیب
گالیاں کھا کے بے مزا نہ ہوا

ہے خبر گرم ان کے آنے کی
آج ہی گھر میں بوریا نہ ہوا

کیا وہ نمرود کی خدائی تھی
بندگی میں مرا بھلا نہ ہوا

جان دی دی ہوئی اسی کی تھی
حق تو یوں ہے کہ حق ادا نہ ہوا

زخم گر دب گیا لہو نہ تھما
کام گر رک گیا روا نہ ہوا

رہزنی ہے کہ دل ستانی ہے
لے کے دل دل ستاں روانہ ہوا

کچھ تو پڑھیے کہ لوگ کہتے ہیں
آج غالبؔ غزل سرا نہ ہوا

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
تمام تبصرے دیکھیں