آج اک اور برس بیت گیا اس کے بغیر

آج اک اور برس بیت گیا اس کے بغیر
جس کے ہوتے ہوئے ہوتے تھے زمانے میرے
آج اک اور برس بیت گیا اس کے بغیر
جس کے ہوتے ہوئے ہوتے تھے زمانے میرے
اے نئے سال بتا، تُجھ ميں نيا پن کيا ہے؟
ہر طرف خَلق نے کيوں شور مچا رکھا ہے
روشنی دن کی وہي تاروں بھري رات وہی
آج ہم کو نظر آتي ہے ہر ايک بات وہی
بیٹے ہیں اپنے باپ کی جاگیر کے رقیب
وہ گھر بھی کوئی گھر ہے جس میں بیٹیاں نہ ہوں
ہیں شعر تِرے شُستہ لب و لہجہ حسِیں ہے
پر کیا ہے کہ یہ مُردہ پرستوں کی زمِیں ہے
اے سہمی کسک تُو نے مِرا ساتھ دیا ہے
ہمدرد مِری تُو ہے، تُو ہی دِل کی مکِیں ہے مزید پڑھیں […]
بستی میں اب کوئی گھر روشن نہیں ہے
دکھ یہ ہے لوگوں کو بھی الجھن نہیں ہے
سو چراغوں کو جلا رکھّا ہے لیکن
گھر ہے کہ پھر بھی ہوا روشن نہیں ہے مزید پڑھیں […]
لگا کر آگ شہرکو یہ بادشاہ نے کہا
اٹھا ہے دل میں تماشے کا آج شوق بہت
جھکا کر سر کو سبھی شاہ پرست بول اٹھے
حضور کا شوق سلامت رہے، شہر اور بہت
دسمبر کی بھیگی شاموں میں
کالی لمبی راتوں میں
تیری یاد ہمراہ ہو تو
شامیں یوں ہی گزر جائیں
راتیں مختصر ہو جائیں
ہم تیری یادوں میں کھو جائیں
تو یہ دسمبر تو کیا
کئی دسمبر گزر جائیں