بزعم خود لبِ محبوب پر سوال ہے کیا

بزعم خود لبِ محبوب پر سوال ہے کیا
جہاں میں کوئی میرے حسن کی مثال ہے کیا
بنانے والا خدا، داد دینے والا میں
بتا كے حسن میں تیرے تیرا کمال ہے کیا
بزعم خود لبِ محبوب پر سوال ہے کیا
جہاں میں کوئی میرے حسن کی مثال ہے کیا
بنانے والا خدا، داد دینے والا میں
بتا كے حسن میں تیرے تیرا کمال ہے کیا
ہم تنہا تھے جب بارش نے دستک دی دروازے پر
ہمیں یوں لگا کے تم آئے ہو
انداز تمھارے جیسا تھا
ہم تنہا تھے جب راہوں میں اک جھونکے نے میرا ساتھ دیا
ہمیں یوں لگا کے تم آئے ہو
انداز تمھارے جیسا تھا
نا رہی بارش نا رہا جھونکا
سب چھوڑ گئے مجھ کو تنہا
ہمیں یوں لگا کے تم جا رہے ہو
انداز تمھارے جیسا تھا
بسا لینا کسی کو دِل میں ، دِل ہی کا کلیجہ ہے
پہاڑوں کو تو بس آتا ہے جل کر طور ہو جانا
میری قربتیں بھی سراب ہیں یہ بھلا ہُوا جو ملی نہیں
تیری دوریاں بھی عذاب ہیں میرے دشتِ جاں سے ٹلیں نہیں
جب چلے تو تنہا تھے سفر میں محسن
پِھر تم ملے غم ملے تنہائی ملی قافلہ سا بن گیا
اور بھی چیزیں بہت سی لٹ چکی ہیں دِل كے ساتھ
یہ بتایا دوستو نے عشق فرمانے كے بعد
اِس لیے کمرے کی اک اک چیز چیک کرتا ہوں
اک تیرے آنے سے پہلے اک تیرے جانے كے بعد
میرے ہم سخن کا یہ حکم تھا کے كلام اس سے میں کم کروں
میرے ہونٹ ایسے سلے کے پِھر میری چُپ نے اس کو رلا دیا
اجڑے ہوئے لوگوں سے گریزاں نہ ہوا کر
حالات کی قبروں كے یہ کتبے بھی پڑھا کر
ہر وقت کا ہنسنا تجھے برباد نہ کر دے
تنہائی كے لمحوں میں کبھی رو بھی لیا کر