تمہارا نام آیا اور ہم تکنے لگے رستہ

تمہارا نام آیا اور ہم تکنے لگے رستہ
تمہاری یاد آئی اور کھڑکی کھول دی ہم نے
تمہارا نام آیا اور ہم تکنے لگے رستہ
تمہاری یاد آئی اور کھڑکی کھول دی ہم نے
ایک ہم تھے سر پِھرے جو جل بُجھے لوگوں میں تھے
ورنہ جِس کو دیکھتے معیار کے لوگوں میں تھے
کون ظالِم حُکمراں کی بات کا دیتا جواب
لوگ جِتنے تھے وہاں سب سر کٹے لوگوں میں تھے
صرف ہاتھوں کو نہ دیکھو کبھی آنکھیں بھی پڑھو
کچھ سوالی بڑے خوددار ہوا کرتے ہیں
یونہی تو نہیں مجھکو ہیں محبوب یہ آنسو
سدا رہتے ہیں تیرے ہجر سے منسوب یہ آنسو
مے سے بھی کہیں بڑھ کر، مجھے مخمور رکھتے ہیں
پسندیدہ ہے ان دنوں میرا مشروب یہ آنسو
او دل توڑ کے جانے والے دل کی بات بتاتا جا
اب میں دل کو کیا سمجھاؤں مجھ کو بھی سمجھاتا جا
وعدوں ہی پہ ہر روز مری جان نہ ٹالو
ہے عید کا دن اب تو گلے ہم کو لگا لو