کوئے عظیم سلطنت اگر کئی بار تباہ و برباد ہوجائے

کوئے عظیم سلطنت اگر کئی بار تباہ و برباد ہوجائے
جس سے پِھر آباد ہو جائے ایسا خزانہ ہیں تیری آنکھیں
کوئے عظیم سلطنت اگر کئی بار تباہ و برباد ہوجائے
جس سے پِھر آباد ہو جائے ایسا خزانہ ہیں تیری آنکھیں
جب ترا حکم ملا ترک محبت کر دی
دل مگر اس پہ وہ دھڑکا کہ قیامت کر دی
تجھ سے کس طرح میں اظہار تمنا کرتا
لفظ سوجھا تو معانی نے بغاوت کر دی
سنا ہے لوگ اسے آنکھ بھر کے دیکھتے ہیں
سو اس کے شہر میں کچھ دن ٹھہر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے ربط ہے اس کو خراب حالوں سے
سو اپنے آپ کو برباد کر کے دیکھتے ہیں
محبت کرنے والوں سے مانگے تو سروں کی بلی
ارے عشق کچھ خیال کر یہ تو رسم ہے کافرانہ
تجھے بھول جاؤں گا اور خوش بھی رہو گا
پر تو چل سکتی ہے کیا ؟ ننگے پاؤں کرچیوں پہ
مانتا ہوں تمہیں کچھ اور بھی لوگ چاہتے ہیں
سن ! جو ہر کسی کو مل جائے بہت عام سی چیز ہوتی ہے
دِل اس کو دیا ہے تو وہی اس میں رہے گا
ہَم لوگ امانت میں خیانت نہیں کرتے
بروز حشر میں بے خوف گھس جاؤں گا جنت میں
وہاں سے آئے تھے آدم وہ میرے باپ کا گھر ہے
——
ان عمل كے ساتھ جنت کا طلبگار ہے کیا
وہاں سے نکالے گئے آدم تو تیری اوقات ہے کیا
نوٹ: یہ اشعار علامہ اقبال کے نہیں ہیں