کہتا تھا كے تو نہ ملا تو مر جاؤں گا محسن

کہتا تھا كے تو نہ ملا تو مر جاؤں گا محسن
وہ آج بھی زندہ ہے یہی بات کسی اور کو کہنے كے لیے
کہتا تھا كے تو نہ ملا تو مر جاؤں گا محسن
وہ آج بھی زندہ ہے یہی بات کسی اور کو کہنے كے لیے
ہم رہے پر نہیں رہے آباد
یاد کے گھر نہیں رہے آباد
کتنی آنکھیں ہوئیں ہلاک نظر
کتنے منظر نہیں رہے آباد
فرض کرو ہم اہلِ وفا ہوں، فرض کرو دیوانے ہوں
فرض کرو یہ دونوں باتیں جھوٹی ہوں افسانے ہوں
فرض کرو یہ جی کی بپتا جی سے جوڑ سنائی ہو
فرض کرو ابھی اور ہو اتنی،آدھی ہم نے چھپائی ہو
بعد مدت اسے دیکھا لوگو
وہ ذرا بھی نہیں بدلا لوگو
خوش نہ تھا مجھ سے بچھڑ کر وہ بھی
اس کے چہرے پہ لکھا تھا لوگو
تمہاری ہر اک بات بے وفائی کی کہانی ہے
لیکن تیری ہر سانس میری زندگی کی نشانی ہے
تم آج تک سمجھ نہیں سکے میرے پیار کو
اس لئے میرے آنسوں بھی تیرے لیے پانی ہیں
دعا تو دِل سے مانگی جاتی ہے زُبان سے نہیں
قبول تو اس کی بھی ہوتی ہے ، جس کی زُبان نہیں ہوتی
دم ادا میں تیرے جو اسیر ہوگئے
عاشقی ہوئی یہاں تک كے میر ہوگئے
حسن وجمال کی تیرے کرکے مصوری
آخر کو ہم بھی اک تصویر ہوگئے
جدوجہد مسلسل ہے ، منزل کی آرزو
زندگی كے اِس سفر میں راہگیر ہوگئے
تیرا پہلو تیرے دِل کے طرح آباد رہے
تجھ پہ گزرے نہ قیامت شب تنہائی کی