ہم اپنی دھرتی سے اپنی ہر سمت خود تلاشیں
ہم اپنی دھرتی سے اپنی ہر سمت خود تلاشیں
ہماری خاطر کوئی ستارہ نہیں چلے گا
ہم اپنی دھرتی سے اپنی ہر سمت خود تلاشیں
ہماری خاطر کوئی ستارہ نہیں چلے گا
دِل میں افسوس آنكھوں میں نمی سی رہتی ہے
زندگی میں شاید کوئی کمی سی رہتی ہے
مجھ سے روٹھ جاتے ہیں اکثر اپنے وصی
شاید میرے خلوص میں کوئی کمی سی رہتی ہے
کچھ لوگ خیالوں سے چلے جائیں تو سوئیں
بیتے ہوئے دن رات نہ یاد آئیں تو سوئیں
روز حساب جب مرا پیش ہو دفتر عمل
آپ بھی شرمسار ہو مجھ کو بھی شرمسار کر
انشاؔ جی اٹھو اب کوچ کرو اس شہر میں جی کو لگانا کیا
وحشی کو سکوں سے کیا مطلب جوگی کا نگر میں ٹھکانا کیا
کسی بے وفا کی خاطر یہ جنوں فراز کب تک
جو تمہیں بھول چکا ہے اسے تم بھی بھول جاؤ