عقل میں جو گھر گیا لا انتہا کیوں کر ہوا

عقل میں جو گھر گیا لا انتہا کیوں کر ہوا
جو سما میں آ گیا پھر وہ خدا کیوں کر ہوا
عقل میں جو گھر گیا لا انتہا کیوں کر ہوا
جو سما میں آ گیا پھر وہ خدا کیوں کر ہوا
روشنی ہوتی نہیں اور دھواں اٹھتا ہے
یہ چراغوں کا بدن ایسے جلایا کس نے ؟
دیمک زدہ کتاب تھی یادوں کی زندگی
ہر ورق کھولنے کی خواہش میں پھٹ گیا
بادلوں كے شہر کی ہر اک گلی کو ہے خبر
دھوپ کی گوری ہتھیلی چوم کر آیا ہوں میں
نہ جانے کتنی مدت سے ہے دِل میں یہ عمل جاری
ذرا سی چوٹ لگتی ہے اور میں سارا ٹوٹ جاتا ہوں
دوست بن کر بھی نہیں ساتھ نبھانے والا
وہی انداز ہے ظالم کا زمانے والا
تجھ کو خبر نہیں مگر اک ساده لوح کو
برباد کر دیا تیرے دو دن كے پیار نے