اک عمر کٹ گئی لیکن بچپنا نہیں جاتا

اک عمر کٹ گئی لیکن بچپنا نہیں جاتا
ہم دیے جلاتے ہیں آج بھی تیری آہٹ پر
اک عمر کٹ گئی لیکن بچپنا نہیں جاتا
ہم دیے جلاتے ہیں آج بھی تیری آہٹ پر
آپ کو آتا رہا میرے ستانے کا خیال
صلح سے اچھی رہی مجھ کو لڑائی آپ کی
کون پریشان ہوتا ہے تیرے غم سے فراز
وہ اپنی ہی کسی بات پہ رویا ہو گا
چل رہے ہیں زمانے میں رشوتوں كے سلسلے
تم بھی کچھ لے دے کے مجھ سے محبت کر لو
ریت ہی ریت ہے اِس دِل میں مسافر میرے
اور یہ صحرا تیرا نقش کفِ پا چاہتا ہے