موسیٰ صفت تھا کوئی تو کی بات طور کی

موسیٰ صفت تھا کوئی تو کی بات طور کی
عاشق کو سوجتی ہیں محبت میں دور کی
ہر روز ان كے کوچی میں دیتا ہوں یہ صدا
مہندی فرید آباد کی ، میتھی قصور کی
موسیٰ صفت تھا کوئی تو کی بات طور کی
عاشق کو سوجتی ہیں محبت میں دور کی
ہر روز ان كے کوچی میں دیتا ہوں یہ صدا
مہندی فرید آباد کی ، میتھی قصور کی
میں نے چاہا ہے تجھے عام سے انساں کی طرح
تو مرا خواب نہیں ہے جو بکھر جائے گا
غم کی بارش نے تیرے نقش کو دھویا نہیں
تو نے مجھے کھو دیا میں نے تجھے کھویا نہیں
کب ٹھہرے گا درد اے دِل ، کب رات بسر ہو گی
سنتے تھے وہ آئیں گے ، سنتے تھے سحر ہو گی
ابتدا وہ تھی کہ جینا تھا محبت میں محال
انتہا یہ ہے کہ اب مرنا بھی مشکل ہو گیا