غمزہ نہیں ہوتا کہ اشارا نہیں ہوتا

غمزہ نہیں ہوتا کہ اشارا نہیں ہوتا
آنکھ ان سے جو ملتی ہے تو کیا کیا نہیں ہوتا
غمزہ نہیں ہوتا کہ اشارا نہیں ہوتا
آنکھ ان سے جو ملتی ہے تو کیا کیا نہیں ہوتا
تیری یادوں کی بارش برستی ہے مجھ پر جب بھی
میں بھیگ ضرور جاتی ہوں مگر پلکوں کی حد تک
پاگل پن کی ساری لکیریں میرے ہاتھ میں کیوں
جس کو چاہوں ، میں ہی چاہوں ، میں ہی چاہوں کیوں
میں زندگی کا ساتھ نبھاتا چلا گیا
ہر فکر کو دھوئیں میں اڑاتا چلا گیا
بربادیوں کا سوگ منانا فضول تھا
بربادیوں کا جشن مناتا چلا گیا
مجھ سے مت کہہ تو ہمیں کہتا تھا اپنی زندگی
زندگی سے بھی میرا جی ان دنوں بیزار ہے
اس کو آنا تھا کہ وہ مجھ کو بلاتا تھا کہیں
رات بھر بارش تھی اس کا رات بھر پیغام تھا