اب کے بارش میں تو یہ کارِ زیاں ہونا ہی تھا
اب کے بارش میں تو یہ کارِ زیاں ہونا ہی تھا
اپنی کچی بستیوں کو بے نشاں ہونا ہی تھا
اب کے بارش میں تو یہ کارِ زیاں ہونا ہی تھا
اپنی کچی بستیوں کو بے نشاں ہونا ہی تھا
بہت تھا خوف جس کا پھر وہی قصا نکل آیا
مرے دکھ سے کسی آواز کا رشتا نکل آیا
آج بھی شاید کوئی پھولوں کا تحفہ بھیج دے
تتلیاں منڈلا رہی ہیں کانچ کے گلدان پر
لوگ پتھر كے بتوں کو پوج کر بھی معصوم رہے فراز
ہَم نے اک انسان کو چاہا اور گنہگار ہو گئے
گھبرا کے آسماں کی طرف دیکھتی تھی خلق
جیسے خدا زمین پہ موجود ہی نہ تھا