یا تومیرے مزاج میں رچ بس گئے ہیں غم
یا تومیرے مزاج میں رچ بس گئے ہیں غم
یا دل کو احتجاج کی عادت نہیں رہی
یا تومیرے مزاج میں رچ بس گئے ہیں غم
یا دل کو احتجاج کی عادت نہیں رہی
عجیب شخص ہے ناراض ہو کے ہنستا ہے
میں چاہتا ہوں خفا ہو تو وہ خفا ہی لگے
پیار کے بندھن خون کے رشتے ٹوٹ گئے خوابوں کی طرح
جاگتی آنکھیں دیکھ رہی تھیں کیا کیا کاروبار ہوئے
گاہے گاہے کی ملاقات ہی اچھی ہے امیرؔ
قدر کھو دیتا ہے ہر روز کا آنا جانا
سیاست مفادات میں کھو گئی ہے
حکومت نجانے کہاں سو گئی ہے
عوامی مسائل انہیں تب دکھے ہیں
کہ جب ان کی مدت ختم ہو گئی ہے
کانٹوں سے دل لگاؤ جو تا عمر ساتھ دیں
پھولوں کا کیا جو سانس کی گرمی نہ سہ سکیں