میں اپنی ذات میں نیلام ہو رہا ہوں قتیل
میں اپنی ذات میں نیلام ہو رہا ہوں قتیل
غم حیات سے کہہ دو خرید لائے مجھے
میں اپنی ذات میں نیلام ہو رہا ہوں قتیل
غم حیات سے کہہ دو خرید لائے مجھے
میں آنے والے زمانوں سے ڈر رہا ہوں فراز
کہ میں نے دیکھی ہیں آنکھیں اداس لوگوں کی
جب ہوا ذکر زمانے میں محبت کا شکیلؔ
مجھ کو اپنے دل ناکام پہ رونا آیا
جو چاہتی دنیا ہے وہ مجھ سے نہیں ہوگا
سمجھوتا کوئی خواب کے بدلے نہیں ہوگا
اپنے ہونٹوں پر سجانا چاہتا ہوں
آ تجھے ميں گنگنانا چاہتا ہوں
کوئي آنسو تيرے دامن پر گرا کر
بُوند کو موتي بنانا چاہتا ہوں
خموشی سے مصیبت اور بھی سنگین ہوتی ہے
تڑپ اے دل تڑپنے سے ذرا تسکین ہوتی ہے
ایک طرف ترے حسن کی حیرت ایک طرف دنیا
اور دنیا میں دیر تلک ٹھہرا نہیں جا سکتا