کل میں نے اس کو دیکھا تو دیکھا نہیں گیا
کل میں نے اس کو دیکھا تو دیکھا نہیں گیا
مجھ سے بچھڑ کے وہ بھی بہت غم سے چور تھا
کل میں نے اس کو دیکھا تو دیکھا نہیں گیا
مجھ سے بچھڑ کے وہ بھی بہت غم سے چور تھا
صداقتوں کا فسانہ بنا لیا ہم نے
ہر اک پل کو زمانہ بنا لیا ہم نے
تمام عمر اسیران قفس تھا لیکن
غضب كے تم کو دیوانہ بنا لیا ہم نے
کھلی فضا پکڑ لوں گا بند آنکھوں سے
سمندروں میں نشانہ بنا لیا ہم نے
ایک ہنگامہ پہ موقوف ہے گھر کی رونق
نوحۂ غم ہی سہی نغمۂ شادی نہ سہی
کیا خوب شام تھی جوان وہ
رَو رہا تھا گلے لگ كے نادان وہ
نا ملے تو مر جاؤں گا یہ کہا اس نے
چھوڑ کر ہمیں کر گیا حیران وہ
سوکھے پتوں کی طرح بکھرے ہیں ہَم تو
کسی نے سمیٹا بھی تو صرف جلانے كے لیے
اور فرازؔ چاہئیں کتنی محبتیں تجھے
ماؤں نے تیرے نام پر بچوں کا نام رکھ دیا