صداقتوں کا فسانہ بنا لیا ہم نے
ہر اک پل کو زمانہ بنا لیا ہم نے
تمام عمر اسیران قفس تھا لیکن
غضب كے تم کو دیوانہ بنا لیا ہم نے
کھلی فضا پکڑ لوں گا بند آنکھوں سے
سمندروں میں نشانہ بنا لیا ہم نے
تمام تر تیرے القاب جھوٹ ہی نکلے
امیر شہر بہانہ بنا لیا ہم نے
تمام عمر ہی پی ہے مگر سلیقے سے
شراب عشق پیمانہ بنا لیا ہم نے
جہاں وه آئے تھے ملنے اک گھنا جنگل تھا
وہیں پہ اپنا آشیانہ بنا لیا ہم نے
پتہ چلا یہ كے جنت ہے ماں كے پاؤں میں
قدم کو اسکے سرہانہ بنا لیا ہم نے