میرا جو کبھی مجھ سے ہی سامنا ہو
میرا جو کبھی مجھ سے ہی سامنا ہو
میں خود پہ کیے ستم کی سزا پوچھوں گا
مجھ کو آپ خود سے جدا نہ کیجئے
ہیں آپ سے مکمل آدھا نہ کیجئے
رائیگاں نہ جائے یہ زندگی آپ کی
یوں خود کو مجھ پہ فنا نہ کیجئے
تیرے ہوتے ہوئے آ جاتی تھی ساری دنیا
آج تنہا ہوں تو کوئی نہیں آنے والا
قیامت تک سجدے میں رہے سَر میرا اے خدا
کے تیری نعمتوں کے شکر كے لیے یہ زندگی کافی نہیں
حج کا سفر ہے اس میں کوئی ساتھ بھی تو ہو
پردہ نشیں سے اپنی ملاقات بھی تو ہو
کب سے ٹہل رہے ہیں گریبان کھول کر
خالی گھٹا کو کیا کریں برسات بھی تو ہو
کوئی بتلاؤ کہ اک عمر کا بِچھڑا محبوب
اتفاقا کہیںملا جائے تو کیا کہتے ہیں
اُسے گمان تھا ہزاروں ملیں گے مجھ جیسے
شکستہ لوٹا تولپٹ گیا مجھ سے چپ چاپ
لگا كے آگ سینے میں چلے ہو تم کہاں
ابھی تو راکھ اڑنے دو تماشا اور بھی ہو گا