ہم حقیقت ہیں تو تسلیم نہ کرنے کا سبب
ہم حقیقت ہیں تو تسلیم نہ کرنے کا سبب
ہاں اگر حرف غلط ہیں تو مٹا دو ہم کو
ہم حقیقت ہیں تو تسلیم نہ کرنے کا سبب
ہاں اگر حرف غلط ہیں تو مٹا دو ہم کو
ترے جمال کی تصویر کھینچ دوں لیکن
زباں میں آنکھ نہیں آنکھ میں زبان نہیں
یہ کون آنے جانے لگا اس گلی میں اب
یہ کون میری داستاں دہرانے والا ہے
دیکھا جو کھا کے تیر کمیں گاہ کی طرف
اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہو گئی
کسی کے جانے سے مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا
لفظ خدا حافظ سے میرے پرانےمراسم ہیں
خیال جس کا تھا مجھے خیال میں ملا مجھے
سوال کا جواب بھی سوال میں ملا مجھے
تُم جی کر دیکھ لو حقیقتوں کی گہری وادیوں میں
میرے لئیے تو خوابوں کا شہر ہی کافی ہے