آج تو بے سبب اداس ہے جی
آج تو بے سبب اداس ہے جی
عشق ہوتا تو کوئی بات بھی تھی
میں بد دعا تو نہیں دے رہی ہوں اُس کو مگر
دعا یہی ہے اُسے مُجھ سا اب کوئی نہ ملے
دل پہ آئے ہوئے الزام سے پہچانتے ہیں
لوگ اب مجھ کو ترے نام سے پہچانتے ہیں
دِل سے خیالِ دوست بھلایا نہ جائے گا
سینے میں داغ ہے كہ مٹایا نہ جائے گا
گھر سے یہ سوچ کہ نکلا ہوں کہ مر جانا ہے
اب کوئی راہ دکھا دے کہ کدھر جانا ہے
اہلِ دل اور بھی ہیں اہلِ وفا اور بھی ہیں
ایک ہم ہی نہیں دُنیا سے خفا، اور بھی ہیں
جب غم مری دھڑکن مری باتوں سے عیاں تھا ، تو کہاں تھا
جب چاروں طرف درد کے دریا کا سماں تھا، تو کہاں تھا
اب آیا ہے جب ڈھل گئے ہیں سبھی موسم، مرے ہمدم
جب تیرے لئے مرا ہر احساس جواں تھا ، تو کہاں تھا