اپنی مرضی سے بھی ہم نے کام کر ڈالے ہیں کچھ

اپنی مرضی سے بھی ہم نے کام کر ڈالے ہیں کچھ
لفظ کو لڑوا دیا ہے بیشتر معنی کے ساتھ
اپنی مرضی سے بھی ہم نے کام کر ڈالے ہیں کچھ
لفظ کو لڑوا دیا ہے بیشتر معنی کے ساتھ
یوں بھی ہوتا ہے کہ یک دم کوئی اچھا لگ جائے
بات کچھ بھی نہ ہو اور دل میں تماشا لگ جائے
آنکھ کے ایک اشارے سے کیا گل اس نے
جل رہا تھا جو دیا اتنی ہوا ہوتے ہوئے
وہ چہرہ ہاتھ میں لے کر کتاب کی صورت
ہر ایک لفظ ہر اک نقش کی ادا دیکھوں
مسکراتے ہوئے ملتا ہوں کسی سے جو ظفرؔ
صاف پہچان لیا جاتا ہوں رویا ہوا میں
بس ایک بار کسی نے گلے لگایا تھا
پھر اس کے بعد نہ میں تھا نہ میرا سایا تھا
گلی میں لوگ بھی تھے میرے اس کے دشمن لوگ
وہ سب پہ ہنستا ہوا میرے دل میں آیا تھا
یہاں کسی کو بھی کچھ حسب آرزو نہ ملا
کسی کو ہم نہ ملے اور ہم کو تو نہ ملا