جو تو نہیں ہے تو یہ مکمل نہ ہو سکیں گی

جو تو نہیں ہے تو یہ مکمل نہ ہو سکیں گی
تری یہی اہمیت ہے میری کہانیوں میں
جو تو نہیں ہے تو یہ مکمل نہ ہو سکیں گی
تری یہی اہمیت ہے میری کہانیوں میں
کب بھلائے جاتے ہے دوست جدا ہو کر بھی وصی
دِل ٹوٹ تو جاتا ہے رہتا پِھر بھی سینے میں ہے
سمجھ نہیں آتی وفا کریں تو کس سے کریں وصی
مٹی سے بنے یہ لوگ کاغذ كے ٹکڑوں پہ بک جاتے ہیں
اک بار تو ملنے آؤ کہ دسمبر آنے والا ہے
کیسا گزرا یہ سال بتانے آؤ دسمبر آنے والا ہے
خوش ہو جاؤ کہ ملنے کا سال آ رہا ہے پھر
وصی یوں نہ آنسو بہاؤ دسمبر آنے والا ہے
ہزاروں موسموں کی حکمرانی ہے مرے دل پر
وصیؔ میں جب بھی ہنستا ہوں تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں
دِل میں افسوس آنكھوں میں نمی سی رہتی ہے
زندگی میں شاید کوئی کمی سی رہتی ہے
مجھ سے روٹھ جاتے ہیں اکثر اپنے وصی
شاید میرے خلوص میں کوئی کمی سی رہتی ہے
ساری رات کی جاگی آنکھیں
کالج میں کیا پڑھتی ہوں گی
یونہی کھوئے دِل ہی دِل میں
جانے کیا کیا کرتی ہوں گی
کون روتا ہے یہاں رات كے سناٹوں میں
میرے جیسا ہی کوئی عشق کا مارا ہو گا
کام مشکل ہے مگر جیت ہی لوں گا اُس کو
میرے مولا کا وصی جونہی اشارہ ہو گا