تختۂ دار پہ چاہے جسے لٹکا دیجے

تختۂ دار پہ چاہے جسے لٹکا دیجے
اتنے لوگوں میں گناہ گار کوئی تو ہوگا
یار ہوتے تو مجھے منہ پہ برا کہہ دیتے
بزم میں میرا گلا سب نے کیا میرے بعد
تلاش کرنی تھی اک روز اپنی ذات مجھے
یہ بھوت بھی مرے سر پر سوار ہونا تھا
رہنے دیا نہ اس نے کسی کام کا مجھے
اور خاک میں بھی مجھ کو ملا کر نہیں گیا
جب اس کی زلف میں پہلا سفید بال آیا
تب اس کو پہلی ملاقات کا خیال آیا
گھبرا کے آسماں کی طرف دیکھتی تھی خلق
جیسے خدا زمین پہ موجود ہی نہ تھا