صبا تو کیا کہ مجھے دھوپ تک جگا نہ سکی

صبا تو کیا کہ مجھے دھوپ تک جگا نہ سکی
کہاں کی نیند اُتر آئی ہے ان آنکھوں میں
صبا تو کیا کہ مجھے دھوپ تک جگا نہ سکی
کہاں کی نیند اُتر آئی ہے ان آنکھوں میں
نم ہے پلکیں تیری اے موج ہوا رات كے ساتھ
کیا تجھے بھی کوئی یاد آتا ہے برسات كے ساتھ
بے فیض رفاقت میں ثمر کِس کے لئے تھا
جب دھوپ تھی قسمت میں تو شجر کِس کے لئے تھا
پردیس میں سونا تھا تو چھت کِس لئے ڈالی
باہر ہی نکلنا تھا تو گھر کِس کے لئے تھا
جس طرح خواب مرے ہو گئے ریزہ ریزہ
اس طرح سے نہ کبھی ٹوٹ کے بکھرے کوئی