حال دل ہم بھی سناتے لیکن

حال دل ہم بھی سناتے لیکن
جب وہ رخصت ہوا تب یاد آیا
وہ شہر میں تھا تو اس کے لیے اوروں سے بھی ملنا پڑتا تھا
اب ایسے ویسے لوگوں کے میں ناز اٹھاؤں کس کے لیے
نہ اب وہ یادوں کا چڑھتا دریا نہ فرصتوں کی اداس برکھا
یوں ہی ذرا سی کسک ہے دل میں جو زخم گہرا تھا بھر گیا وہ
وہ رات کا بےنوا مسافر وہ تیرا شاعر وہ تیرا ناصر
تیری گلی تک تو ہَم نے دیکھا پِھر نہ جانے کدھر گیا وہ
یہ صبح کی سفیدیاں یہ دوپہر کی زردیاں
اب آئینے میں دیکھتا ہوں میں کہاں چلا گیا