تھکے لوگوں کو مجبوری میں چلتے دیکھ لیتا ہوں

تھکے لوگوں کو مجبوری میں چلتے دیکھ لیتا ہوں
میں بس کی کھڑکیوں سے یہ تماشے دیکھ لیتا ہوں
تھکے لوگوں کو مجبوری میں چلتے دیکھ لیتا ہوں
میں بس کی کھڑکیوں سے یہ تماشے دیکھ لیتا ہوں
کچھ وقت چاہتے تھے کہ سوچیں ترے لیے
تو نے وہ وقت ہم کو زمانے نہیں دیا
ہستی ہی اپنی کیا ہے زمانے کے سامنے
اک خواب ہیں جہاں میں بکھر جائیں ہم تو کیا
یہ کیسا نشہ ہے میں کس عجب خمار میں ہوں
تو آ کے جا بھی چکا ہے میں انتظار میں ہوں
مکاں ہے قبر جسے لوگ خود بناتے ہیں
میں اپنے گھر میں ہوں یا میں کسی مزار میں ہوں
کس حسیں، خاموش گلشن میں کھلا ہے میری چاہت کا دمکتی پنکھڑیوں والا گلاب
کون سے جادو بھرے کوچے میں بہتی ہے ان آنکھوں کی خمار آگیں شراب
کب فیصلِ شب كے اک پوشیدہ دروازے سے جھا نکے گا وہ چمکیلا سَراب
بول اے بادِ شبانہ كے نرالے نقش دکھلاتے ہوئے گونگے رُباب
ستارے جو چمکتے ہیں کسی کی چشم حیران میں
ملاقاتیں جو ہوتی ہے جمال ابرو باراں میں
یہ نا آباد وقتوں میں دلِ ناشاد میں ہو گی
محبت اب نہیں ہو گی یہ کچھ دن بعد میں ہو گی
گزر جائیں گے جب یہ دن یہ ان کی یاد میں ہو گی
سکون دیتی ہے دِل کو کبھی کبھی کی دعا
کبھی کبھی کی دعا میں ہے تازگی کی دعا
بہت دعائیں بے دیتی ہے بے حسی دل کو
بہت دعائیں بھی ہوتی ہیں بے دلی کی دعا