اپنی زباں سے کچھ نہ کہیں گے چپ ہی رہیں گے عاشق لوگ
اپنی زباں سے کچھ نہ کہیں گے چپ ہی رہیں گے عاشق لوگ
تم سے تو اتنا ہو سکتا ہے پوچھو حال بیچاروں کا
اپنی زباں سے کچھ نہ کہیں گے چپ ہی رہیں گے عاشق لوگ
تم سے تو اتنا ہو سکتا ہے پوچھو حال بیچاروں کا
ہم لوگ تو ظُلمت میں جِینے کے بھی عادی ہیں
اس درد نے کیوں دل میں شمعیں سی جلا دی ہیں
اِک یاد پہ آہوں کا طُوفاں اُمڈتا ہوا آتا ہے
اِک ذکر پہ اب دل کو تھاما نہیں جاتا ہے
ایک چھوٹا سا لڑکا تھا میں جن دنوں
اک میلے میں پہنچا ہمکتا ہوا
جی مچلتا تھا اک اک شے پر مگر
جیب خالی تھی کچھ مول لے نہ سکا
لوٹ آیا لیے حسرتیں سینکڑوں
مزید پڑھیں […]
وعدہ تو کیا ہے مگر ایفا نہ کریں گے
ایفا جو کریں گے کوئی اچھا نہ کریں گے
لوگوں سے چھپالیں گے جو احوال ہے جی کا
اپنے سے کسی بات میں دھوکا نہ کریں گے
اے دل ترے فرمانوں کو ٹالا ہے نہ ٹالیں
اُن کی بھی ترے سامنے پرواہ نہ کریں گے
اِس راہ کو ہم چھوڑ کے جائیں کسی جانب
آرزدہ نہ ہو ہم کبھی ایسا نہ کریں گے
لکھیں گے اُسی ٹھاٹ سے نظمیں، کبھی غزلیں
ہاں آج سے لوگوں کو دِکھایا نہ کریں گے
فرض کرو ہم اہلِ وفا ہوں، فرض کرو دیوانے ہوں
فرض کرو یہ دونوں باتیں جھوٹی ہوں افسانے ہوں
فرض کرو یہ جی کی بپتا جی سے جوڑ سنائی ہو
فرض کرو ابھی اور ہو اتنی،آدھی ہم نے چھپائی ہو
شب بیتی چاند بھی ڈوب چلا زنجیر پڑی دروازے میں
کیوں دیر گئے گھر آئے ہو سجنی سے کرو گے بہانا کیا
جب شہر کے لوگ نہ رستا دیں کیوں بن میں نہ جا بسرام کرے
دیوانوں کی سی نہ بات کرے تو اور کرے دیوانا کیا
جب دہر کے غم سے اماں نہ ملی، ہم لوگوں نے عشق ایجاد کیا
کبھی شہر بتاں میں خراب پھرے، کبھی دشتِ جنوں آباد کیا
کبھی بستیاں بن، کبھی کوہ و دمن، رہا کتنے دنوں یہی جی کا چلن
جہاں حسن ملا وہاں بیٹھ رہے، جہاں پیار ملا وہاں صاد کیا
کچھ کہنے کا وقت نہیں یہ کچھ نہ کہو خاموش رہو
اے لوگو خاموش رہو ہاں اے لوگو خاموش رہو