تمھیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
وہ جو دودھ شہد کی کھیر تھی
وہ جو نرم مثلِ حریر تھی
وہ جو آملے کا اچار تھا
وہ جو ہم میں تم میں قرار تھا
تمھیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
وہ جو دودھ شہد کی کھیر تھی
وہ جو نرم مثلِ حریر تھی
وہ جو آملے کا اچار تھا
وہ جو ہم میں تم میں قرار تھا
تمھیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
پانچ دن ملے زندگی کے مگر
گزرے ہی تھے ابھی چار کہ بتی چلی گئی
کل واپڈا کے دفتر میں میٹنگ تھی کچھ خاص
ہونے لگی تکرار کہ بتی چلی گئی
طرزِ لباس تازہ ہے اک شکل احتجاج
فیشن كے اہتمام سے کیا کچھ عیاں نہیں
یہ لڑکیوں کو شکوہ ہے کیوں لڑکیاں ہیں ہم
لڑکوں کو یہ گلہ ہے وہ کیوں لڑکیاں نہیں
عجب دیوار اک دیکھی ہے میں نے آج رستے میں
نہ کچھ دیوار كے آگے نہ کچھ دیوار كے پیچھے
بڑے نمناک سے ہوتے ہیں انور قہقہے تیرے
کوئی دیوار گریہ ھے ترے اشعار کے پیچھے
استاد نے شاگرد سے اک روز یہ پوچھا
ہے جمعه مبارک کی فضیلت کا تجھے علم
کہنے لگا شاگرد كے معلوم ہے مجھ کو
ریلیز اسی روز تو ہوتی ہے نئی فلم