ہرلحظہ ہے مومن کی نئی شان، نئی آن

ہرلحظہ ہے مومن کی نئی شان، نئی آن
گُفتار میں، کردار میں، اللہ کی برُہان
قہاّری و غفاّری و قدّوسی و جبروت
یہ چار عناصر ہوں تو بنتا ہے مسلمان
ہرلحظہ ہے مومن کی نئی شان، نئی آن
گُفتار میں، کردار میں، اللہ کی برُہان
قہاّری و غفاّری و قدّوسی و جبروت
یہ چار عناصر ہوں تو بنتا ہے مسلمان
گر لہو ہے بدن میں تو خوف ہے نہ ہراس
اگر لہو ہے بدن میں تو دِل ہے بے وسواس
جسے ملا یہ متاع گراں بہا اِس کو
نا سیم و زر سے محبت ہے نہ غم افلاس
کیوں زیاں کار بنوں سود فراموش رہوں
فکر فردا نہ کروں محو غم دوش رہوں
نالے بلبل کے سنوں اور ہمہ تن گوش رہوں
ہم نوا میں بھی کوئی گل ہوں کہ خاموش رہوں
پرندوں کی دنیا کا درویش ہوں میں
كہ شاہیں بناتا نہیں آشیانہ
حسن كردار سے نور مجسم ہو جا
کہ ابلیس بھی تجھے دیکھے تو مسلماں ہو جائے
ڈھونڈتا پھرتا ہوں اے اقبال اپنے آپ کو
آپ ہی گویا مسافر آپ ہی منزل ہوں میں
یہ فیضان نظر تھا یا كہ مکتب کی كرامت تھی
سکھائے کس نے اسمٰعیل ( علیہ السلام ) کو آداب فرزندی