خودی میں ڈوب ، زمانے سے نا امید نہ ہو
خودی میں ڈوب ، زمانے سے نا امید نہ ہو
کہ اس کا زخم ہے درپردہ اہتمام رفو
خودی میں ڈوب ، زمانے سے نا امید نہ ہو
کہ اس کا زخم ہے درپردہ اہتمام رفو
اپنے بھی خفا مجھ سے ہیں ، بیگانے بھی نا خوش
میں زہر ہلاہل کو کبھی کہہ نہ سکا قند
زندگی کچھ اور شے ہے، علم ہے کچھ اور شے
زندگی سوزِ جگر ہے، علم ہے سوزِ دماغ
نہیں ہے نا امید اقبال اپنی کشتِ ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت ذرخیز ہے ساقی
موجوں كی تپش کیا ہے فقط زوق طلب ہے
پنہاں جو صدف میں ہیں وہ دولت ہے خدا داد
مسجد تو بنا دی شب بھر میں ایماں کی حرارت والوں نے
من اپنا پرانا پاپی ہے برسوں میں نمازی بن نہ سکا
گزر اوقات کر لیتا ہے یہ کوہ و بِیاباں میں
كے شاہین كے لیے ذلت ہے کار آشیاں بندی