عشق بھی ہو حجاب میں حسن بھی ہو حجاب میں

عشق بھی ہو حجاب میں حسن بھی ہو حجاب میں
یا تو خود آشکار ہو یا مجھے آشکار کر
عشق بھی ہو حجاب میں حسن بھی ہو حجاب میں
یا تو خود آشکار ہو یا مجھے آشکار کر
بتوں سے تجھ کو امیدیں خدا سے نو امیدی
مجھے بتا تو سہی اور کافری کیا ہے
مانا كے تیری دید كے قابل نہیں ہوں میں
تو میرا شوق دیکھ ، میرا انتظار دیکھ
نہ تو زمیں كے لیے ہے نہ آسمان كے لیے
جہاں ہے تیرے لیے تو نہیں جہاں كے لیے
نشانِ راہ دکھاتے تھے جو ستاروں کو
ترس گئے ہیں کسی مردِ راہ داں كے لیے
لا پھر اک بار وہی بادہ و جام اے ساقی
ہاتھ آ جائے مجھے میرا مقام اے ساقی
تین سو سال سے ہیں ہند کے مے خانے بند
اب مناسب ہے ترا فیض ہو عام اے ساقی
وہ دانائے سُبل، ختم الرسل مولائے کل جس نے
غبارِ راہ کو بخشا فروغ وادی سینا
نگاہ عشق و مستی میں وہی اول وہی آخر
وہی قرآں ، وہی فرقاں ، وہی یٰسیں ، وہی طٰہٰ
جمہوریت اک طرزِ حکومت ہے كے جس میں
بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے
تیرے عشق کی انتہا چاہتا ہوں
میری سادگی دیکھ میں کیا چاہتا ہوں
ستم ہو کہ ہو وعدہ بے حجابی
کوئی بات صبر آزما چاہتا ہوں