دل تو وہ برگِ خزاں ہے کہ ہوا لے جائے

دل تو وہ برگِ خزاں ہے کہ ہوا لے جائے
غم وہ آندھی ہے کہ صحرا بھی اُڑا لے جائے
کون لایا تری محفل میں ہمیں ہوش نہیں
کوئی آئے تری محفل سے اُٹھا لے جائے
دل تو وہ برگِ خزاں ہے کہ ہوا لے جائے
غم وہ آندھی ہے کہ صحرا بھی اُڑا لے جائے
کون لایا تری محفل میں ہمیں ہوش نہیں
کوئی آئے تری محفل سے اُٹھا لے جائے
اس کو جدا ہوئے بھی زمانہ بہت ہوا
اب کیا کہیں یہ قصہ پرانا بہت ہوا
ڈھلتی نہ تھی کسی بھی جتن سے شب فراق
اے مرگ ناگہاں ترا آنا بہت ہوا
ہم خلد سے نکل تو گئے ہیں پر اے خدا
اتنے سے واقعے کا فسانہ بہت ہوا
میری پلکوں کا اب نیند سے کوئی واسطہ نہیں فراز
میرا کون ہے اِس دُنیا میں ، اسی سوچ میں رات گزر جاتی ہے
سنا ہے لوگ اسے آنکھ بھر کے دیکھتے ہیں
سو اس کے شہر میں کچھ دن ٹھہر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے ربط ہے اس کو خراب حالوں سے
سو اپنے آپ کو برباد کر کے دیکھتے ہیں
پیار اور محبت اس دور کی بات ہے فراز
جب مکان کچے اور لوگ سچے ہوا کرتے تھے
وہ زندگی ہو كے دنیا فراز کیا کیجئے
کہ جس سے عشق کرو بے وفا نکلتی ہے
مجھ سے ہر بار وہ نظریں چرا لیتا ہے فراز
میں نے کاغذ پہ بھی بنا كے دیکھی ہیں آنکھیں اس کی
میں شب کا بھی مجرم ہوں سحر کا بھی ہوں مجرم
یارو مجھے اِس شہر كے آداب سکھا دو