تیری باتیں ہی سنانے آئے

تیری باتیں ہی سنانے آئے
دوست بھی دل ہی دکھانے آئے
پھول کھلتے ہیں تو ہم سوچتے ہیں
تیرے آنے کے زمانے آئے
تیری باتیں ہی سنانے آئے
دوست بھی دل ہی دکھانے آئے
پھول کھلتے ہیں تو ہم سوچتے ہیں
تیرے آنے کے زمانے آئے
اس کی آنكھوں کو کبھی غور سے دیکھا ہے فراز
سونے والوں کی طرح جاگنے والوں جیسی
ایسی تاریکیاں آنکھوں میں بسی ہیں کہ فرازؔ
رات تو رات ہے ہم دن کو جلاتے ہیں چراغ
دِل کو تیری چاہت پہ بھروسہ بھی بہت ہے
اور تجھ سے بچھڑ جانے کا ڈَر بھی نہیں جاتا
تیرے ہوتے ہوئے آ جاتی تھی ساری دنیا
آج تنہا ہوں تو کوئی نہیں آنے والا
کوئی بتلاؤ کہ اک عمر کا بِچھڑا محبوب
اتفاقا کہیںملا جائے تو کیا کہتے ہیں
اور فرازؔ چاہئیں کتنی محبتیں تجھے
ماؤں نے تیرے نام پر بچوں کا نام رکھ دیا
میں آنے والے زمانوں سے ڈر رہا ہوں فراز
کہ میں نے دیکھی ہیں آنکھیں اداس لوگوں کی