وہ خط جو تم نے کبھی لکھا ہی نہیں

وہ خط جو تم نے کبھی لکھا ہی نہیں
میں روز بیٹھ کر اس کا جواب لکھتا ہوں
وہ خط جو تم نے کبھی لکھا ہی نہیں
میں روز بیٹھ کر اس کا جواب لکھتا ہوں
بڑا شوق تھا انہیں میرا آشانہ دیکھنے کا
جب دیکھی میری غریبی تو رستہ بَدَل لیا
اب کے بارش میں تو یہ کارِ زیاں ہونا ہی تھا
اپنی کچی بستیوں کو بے نشاں ہونا ہی تھا
غزل فضا بھی ڈھونڈتی ہے اپنے خاص رنگ کی
ہمارا مسئلہ فقط قلم دوات ہی نہیں
دیکھنا حشر میں جب تم پہ مچل جاؤں گا
میں بھی کیا وعدہ تمہارا ہوں کہ ٹل جاؤں گا
اب اپنا اختیار ہے چاہے جہاں چلیں
رہبر سے اپنی راہ جدا کر چکے ہیں ہم
وقت ضائع نہ کرو ہم نہیں ایسے ویسے
یہ اشارہ تو مجھے اس نے کئی بار دیا