اپنوں کی چاہتوں میں ملاوٹ تھی اِس قدر

اپنوں کی چاہتوں میں ملاوٹ تھی اِس قدر
تنگ آ كے دشمنوں کو منانے چلا گیا
اپنوں کی چاہتوں میں ملاوٹ تھی اِس قدر
تنگ آ كے دشمنوں کو منانے چلا گیا
بکھری کتابیں بھیگے اوراق اور یہ تنہائی
کہوں کیسے کے ملا محبت میں کچھ بھی نہیں
غضب کی دھوپ تھی تنہائیوں كے جنگل میں
شجر بہت تھے ، مگر کوئی سایہ دار نہ تھا
دیکھا آئینہ تو پِھر جذبوں کا یوں اظہار ہوا
وہ شخص پِھر سے میرے سامنے اشکبار ہوا
دکھ میں رات کٹی تو سویرا بھی مدھم سا رہا
تنحیون كے سوگ کا چرچا بھی بےشمار ہوا