اپنے سائے سے چونک جاتے ہیں

اپنے سائے سے چونک جاتے ہیں
عمر گزری ہے اس قدر تنہا
سایہ بھی تیرا تجھ کو کہیں چھوڑ جائے گا
آئی بھی تیرے کام تو تنہائی آئے گے
اب وہ باتیں نہ وہ راتیں نہ ملاقاتیں ہیں
محفلیں خواب کی صورت ہوئیں ویراں کیا کیا
میں کیسے مان لوں كے کوئی میرا نہیں رہا
جب تک خدا کی ذات ہے تنہا نہیں ہوں میں
میری تنہائی کو میرا شوق نہ سمجھنا
بہت پیار سے دیا ہے یہ تحفہ کسی نے
دِل پریشان ہے شب و روز کی یک رنگی سے
کل بھی تنہائی تھی اور آج بھی تنہائی ہے
ہجر کی تنہائی کچھ یوں گزار لیتے ہیں
مختلف زاویوں سے سیلفیی اتار لیتے ہیں