یہ سال بھی اداسیاں دے کر چلا گیا

یہ سال بھی اداسیاں دے کر چلا گیا
تم سے ملے بغیر دسمبر چلا گیا
دسمبر کی شب آخر نہ پوچھو کس طرح گزری
یہی لگتا تھا ہر دم وہ ہمیں کچھ پھول بھیجے گا
ایک ہم تھے سر پِھرے جو جل بُجھے لوگوں میں تھے
ورنہ جِس کو دیکھتے معیار کے لوگوں میں تھے
کون ظالِم حُکمراں کی بات کا دیتا جواب
لوگ جِتنے تھے وہاں سب سر کٹے لوگوں میں تھے
میرا اس شہر عداوت میں بسیرا ہے جہاں
لوگ سجدوں میں بھی لوگوں کا برا سوچتے ہیں
میں اس کو پوج تو سکتا ہوں چھو نہیں سکتا
جو فاصلوں کی طرح میرے ساتھ رہتا ہے
کیا بتائیں دوستو دُنیا نے توڑا کِس طرح
ریشۂِ اُمید سے پِھر دل کو جوڑا کِس طرح
تُم نے ماضی کو کُریدا ہے تو پِھر اِتنا کہو
زخم ہو گا مُندمِل، جائے گا پھوڑا کِس طرح؟؟
اے بچپن تجھے یا د ہے
تیرا وہ یوں روتے روتے مسکرا دینا تجھے یاد ہے۔
کیسے کروں میں بیاں تجھ کو
تو اک حسین پل کیسے معمور ہوا تجھے یاد ہے۔
ہوتی اگر خواہش تو پا لینے کا جزبہ
پھر وہ خوشی سے میسر یا ضد تجھے یاد ہے۔
تو اتنا حسیں ! سر سے قدم تلک جھلک میں
تو اتنا خاموش جسے اندیشہ زوال نہ تھا تجھے یاد ہے۔
اشک !اشک آنکھوں میں کب آئیں کوئ خبر نہیں
دل سے کب رخصت ہوئ کوئ خوائش تجھے یاد ہے۔
ایس چہرہ پر نور تھا گویا شمع تھی روشن
رتبہ حسن میں شمس و قمر سے بالا تر تجھے یاد ہے۔ مزید پڑھیں […]