جہاں میں تھی بس اک افواہ تیرے جلووں کی

جہاں میں تھی بس اک افواہ تیرے جلووں کی
چراغ دیر و حرم جھلملائے ہیں کیا کیا
جہاں میں تھی بس اک افواہ تیرے جلووں کی
چراغ دیر و حرم جھلملائے ہیں کیا کیا
ازل سے بے سمت جستجو کا سفر ہے درپیش پانیوں کو
کسے خبر کس کو ڈھونڈتا ہے میری طرح رائیگاں سمندر
چل رہے ہیں زمانے میں رشوتوں كے سلسلے
تم بھی کچھ لے دے کے مجھ سے محبت کر لو
تم کو چاہا تو خطا کیا ہے بتا دو مجھ کو
دوسرا کوئی تو اپنا سا دکھا دو مجھ کو
جو تو نہیں ہے تو یہ مکمل نہ ہو سکیں گی
تری یہی اہمیت ہے میری کہانیوں میں
کل چودھویں کی رات تھی شب بھر رہا چرچا ترا
کچھ نے کہا یہ چاند ہے کچھ نے کہا چہرا ترا