رات کے شاید ایک بجے ہیں

رات کے شاید ایک بجے ہیں
سوتا ہوگا میرا چاند
جیسی اب ہے ایسی حالت میں نہیں رہ سکتا
میں ہمیشہ تو محبت میں نہیں رہ سکتا
حقیقت کھل گئی حسرتؔ ترے ترک محبت کی
تجھے تو اب وہ پہلے سے بھی بڑھ کر یاد آتے ہیں
غمزہ نہیں ہوتا کہ اشارا نہیں ہوتا
آنکھ ان سے جو ملتی ہے تو کیا کیا نہیں ہوتا
پاگل پن کی ساری لکیریں میرے ہاتھ میں کیوں
جس کو چاہوں ، میں ہی چاہوں ، میں ہی چاہوں کیوں
غم کی بارش نے تیرے نقش کو دھویا نہیں
تو نے مجھے کھو دیا میں نے تجھے کھویا نہیں
ابتدا وہ تھی کہ جینا تھا محبت میں محال
انتہا یہ ہے کہ اب مرنا بھی مشکل ہو گیا