مجھے اک بات کہنے دو، مجھے تم سے محبت ہے

مجھے اک بات کہنے دو، مجھے تم سے محبت ہے
ہمیشہ ساتھ رہنے دو، مجھے تم سے محبت ہے
مجھے اک بات کہنے دو، مجھے تم سے محبت ہے
ہمیشہ ساتھ رہنے دو، مجھے تم سے محبت ہے
سنو
عداوتوں سے کنارہ کر لو
خوشی کو اپنا سہارا کر لو
جہاں ملے تھے ہَم دونوں
جہاں خواب بوئے تھے
جہاں سے حد گزرتی تھے
میرے تمھارے محبت کی
اسی مقام سے ایک بار پھر
وہی سفر دوبارہ کرلو
سنو
محبت کا اشارہ کر لو
اے صنم جس نے تجھے چاند سی صورت دی ہے
اسی اللہ نے مجھ کو بھی محبت دی ہے
ایک حقیقت سہی فردوس میں حوروں کا وجود
حسنِ انساں سے نمٹ لوں تو وہاں تک دیکھوں
محبت میں دَغا دوں گا، کبھی تم سوچنا مت یہ
تمھیں اِک دِن بُھلا دوں گا، کبھی تم سوچنا مت یہ
میری جتنی محبت ہے، سبھی تیری امانت ہے
میں چاہت یہ گھٹا دوں گا، کبھی تم سوچنا مت یہ
محبت سے تمھیں مِل کے، کسی مورت کو میں دِل کے
مندر میں سجا دوں گا، کبھی تم سوچنا مت یہ
نہیں یہ وقت گزاری ہے، عمر یہ وقف ساری ہے
تیری قدریں گِرا دوں گا، کبھی تم سوچنا مت یہ
تیرے صدقے اُتاروں گا، دِل و جاں تجھ پہ واروں گا
کوئی آنے بَلا دوں گا، کبھی تم سوچنا مت یہ
شاعر: طارق اقبال حاوی
تو سامنے ہے تو پھر کیوں یقیں نہیں آتا
یہ بار بار جو آنکھوں کو مل کے دیکھتے ہیں
دو گھونٹ محبت پی تھی ابھی
کہ قاتل سر پر آ پہنچا
آنکھوں سے اس نے پلائی تھی
ہونٹوں سے ذرا سی چکھی تھی