دو گھونٹ محبت پی تھی ابھی
کہ قاتل سر پر آ پہنچا
آنکھوں سے اس نے پلائی تھی
ہونٹوں سے ذرا سی چکھی تھی
وہ ہونٹ تو جام شیریں تھے
وہ آنکھیں جیسے روح افزاح
کیا کرتے جو نہ مرتے یم
اس وقت تو بت بن بیٹھے تھے
قاتل نے پلٹ کر وار کیا
کچھ میرے گلے کے پار کیا
سر فرش پہ زور سے آ کے گرا
وہ خواب سہانا ٹوٹ گیا
دو گھونٹ محبت ویسی ملے تو
جاں بھی فدا کر جاوں میں
ان شیریں شیریں ہونٹوں پر
ان روح افزاح سی آنکھوں پر