آج تو بے سبب اداس ہے جی

آج تو بے سبب اداس ہے جی
عشق ہوتا تو کوئی بات بھی تھی
اس معرکے میں عشق بچارا کرے گا کیا
خود حسن کو ہیں جان کے لالے پڑے ہوئے
سنتے ہیں عشق نام کے گزرے ہیں اک بزرگ
ہم لوگ بھی فقیر اسی سلسلے کے ہیں
دِل لگی ہے اور ، عشق ہے مشقت اور
بوجھ ہے کسی پہ ، کسی کی ہے ثروت اور
اپنے ہوئے بیگانے کہیں پہ
کہیں ہے دشمنوں کی عنایت اور