بلبل کے کاروبار پہ ہیں خندہ ہائے گل

بلبل کے کاروبار پہ ہیں خندہ ہائے گل
کہتے ہیں جس کو عشق خلل ہے دماغ کا
بلبل کے کاروبار پہ ہیں خندہ ہائے گل
کہتے ہیں جس کو عشق خلل ہے دماغ کا
نبیل آئین عشق میں بھی تو اک ترمیم ہونی چاہیے
کھیل کے دل توڑنے کی نہیں موڑنے کی ریت ہونی چاہیے
میرے سارے قاتل مجھ پر جان و دِل سے عاشق تھے
میں نے ہی خود کو مارا خیر ، سب کا بھلا ہو سب کی خیر
عشق کے اظہار میں ہر چند رسوائی تو ہے
پر کروں کیا اب طبیعت آپ پر آئی تو ہے
عشق پر گیت لکھوں کیوں کر، عشق میں رہا سرورنہیں
سُر تال کے نشے میں جھوم اُٹھا، چڑھا کوئی فطور نہیں
میری حالت پر نہ ترس کھا ،کہ ابھی جان سے گزرنا ہے
خودی بنا رکھی ہے یہ حالت اپنی، مُصور کا قصور نہیں
مجھے جنت میں بھی چاہیے صرف اور صرف تیرا ساتھ
وہاں بھی طلبِ تحت، طلبِ مہ یا طلبِ حور نہیں
طلب یوں جیسے آواز کو الفاظ کی، گیت کو ساز کی
لیکن چھین لوں تیری خوشی یہ بھی منظور نہیں
وہ گناہ کیے جو بتاؤں تو مان لیں اُستاد اپنا
ان گناہگاروں میں لیکن ابھی ہونا مشہور نہیں
کوئی کر نا دے نعمانؔ ذخمی مجھے، پہنی ہتھکڑی اس لیے
ورنہ میں کوئی مجرم نہیں، تیرے زنداں میں محصور نہیں
بلھے شاہ زہر دیکھ کے پیتا تے کی پیتا
عشق سوچ كے کیتا تے کی کیتا
دِل دے كے دِل لین دی آس رکھی
وی بلھیا پیار اہو جیا کیتا تے کی کیتا
یہ تو کہو کبھی عشق کیا ہے، جگ میں ہوئے ہو رُسوا کبھی
اس کے سوا ہم کچھ بھی نہ پُوچھیں، باقی بات فضُول میاں