وُہ مِرا دوست مِرے حال سے آگاہ تو ہو

وُہ مِرا دوست مِرے حال سے آگاہ تو ہو
نا سہی سچ میں مگر خواب میں ہمراہ تو ہو
کُچھ اثر اُن پہ مِری آہ و فُغاں کا یارو
ہو نہ ہو، پِھر بھی مِرے لب پہ کوئی آہ تو ہو
وُہ مِرا دوست مِرے حال سے آگاہ تو ہو
نا سہی سچ میں مگر خواب میں ہمراہ تو ہو
کُچھ اثر اُن پہ مِری آہ و فُغاں کا یارو
ہو نہ ہو، پِھر بھی مِرے لب پہ کوئی آہ تو ہو
ہونٹوں پہ کبھی ان کے مرا نام ہی آئے
آئے تو سہی بر سر الزام ہی آئے
حیران ہیں لب بستہ ہیں دلگیر ہیں غنچے
خوشبو کی زبانی ترا پیغام ہی آئے
کب ہم نے کہا تُم سے محبّت ہے، نہِیں تو
دِل ہِجر سے آمادۂِ وحشت ہے، نہِیں تو
باتیں تو بہُت کرتے ہیں ہم کُود اُچھل کر
اِس عہد میں مزدُور کی عِزّت ہے، نہِیں تو
دیکھا ہے جو اِک میں نے وہی خواب بہُت ہے
ورنہ تو وفا دوستو! کمیاب بہُت ہے
یہ دِل کی زمِیں بنجر و وِیران پڑی تھی
تھوڑی سی ہُوئی تُُجھ سے جو سیراب بہُت ہے
بدلے ہوئے حالات سے ڈر جاتا ہوں اکثر
شیرازۂ ملت ہوں، بکھر جاتا ہوں اکثر
میں ایسا سفینہ ہوں کہ ساحل کی صدا پر
طوفان کے سینے میں اتر جاتا ہوں اکثر
سُناؤں گا تُمہیں اے دوست میں فُرصت سے حال اپنا
مہِینہ چین سے گُزرا، نہ دِن، گھنٹہ نہ سال اپنا
تُمہارے ہِجر و حرماں سے کہُوں کیا حال کیسا ہے
سمجھ لِیجے کہ ہونے کو ہے اب تو اِنتقال اپنا
خموش صُبحیں، اُداس شامیں، تِرا پتہ مُجھ سے پُوچھتی ھیں
بتاؤں اب کیا کہ یِہ فضائیں پلٹ کے کیا مُجھ سے پُوچھتی ھیں
اُداس چِڑییں جو دِن کو دانے کی کھوج میں تِھیں، ھیں لوٹ آئی
کہاں ھے شاخ شجر کہ جِس پر تھا گھونسلہ مُجھ سے پُوچھتی ھیں
تُمہیں تو صحرا نوردیوں میں کمال ھے، کُچھ ھمیں بتاؤ مزید پڑھیں […]
بینک میں کھاتہ محبّت کا بھی کھولا جاتا
عِشق لیژر کو ہر اِک لمحہ ٹٹولا جاتا
چیک بھرتا جو کبھی کیش کرانے کے لِیئے
"کھاتہ خالی ہے” بڑے پیار سے بولا جاتا