یہ جو دیوانے سے دو چار نظر آتے ہیں

یہ جو دیوانے سے دو چار نظر آتے ہیں
ان میں کچھ صاحب اسرار نظر آتے ہیں
تیری محفل کا بھرم رکھتے ہیں سو جاتے ہیں
ورنہ یہ لوگ تو بیدار نظر آتے ہیں
یہ جو دیوانے سے دو چار نظر آتے ہیں
ان میں کچھ صاحب اسرار نظر آتے ہیں
تیری محفل کا بھرم رکھتے ہیں سو جاتے ہیں
ورنہ یہ لوگ تو بیدار نظر آتے ہیں
تھا بے سکت ہوا میں اُچھالا گیا تھا جب
بے روزگار گھر سے نِکالا گیا تھا جب
ناکامیوں نے مُجھ میں بڑی توڑ پھوڑ کی
محرُومیوں کی گود میں ڈالا گیا تھا جب
ہجوم شہر سے ہٹ کر، حدود شہر کے بعد
وہ مسکرا کے ملے بھی تو کون دیکھتا ہے ؟
جس آنکھ میں کوئی چہرہ نہ کوئی عکس طلب
وہ آنکھ جل کے بجھے بھی تو کون دیکھتا ہے ؟
اب چلے بھی آؤ، کہ شام ڈھلنے لگی ہے
آفتاب ڈھلنے کو ہے،اور شمع جلنے لگی ہے
اک امید لگا بیٹھا ہوں، تُجھ سے ملنے کی میں
فُرصت ملے تو آ جانا،ورنہ تنہائی لپِٹنے لگی ہے
یقِیں نہِیں تو محبّت کو آزماتا جا
لُٹا خُلوص، وفاؤں کے گِیت گاتا جا
تقاضہ تُجھ سے اگر کر رہی کوئی ممتازؔ
دل آگرہؔ ہے محل اِس پہ تُو بناتا جا
ابھی تو ہم نے اپنی دنیا بسانی تھی
اور اک داستاں بھی تجھے سنانی تھی
تم نے پہلے ہی ختم کر دیا سب کچھ
ابھی تو میں نے گھر بھی بات منوانی تھی
مطلب تیری یاد سے بھی غافل ہو جاؤں
یہی تو اک تیری آخری نشانی تھی
ہوئی پتا نہیں مکمل غزل کیسے ؟
ابھی تو میں نے قلم بھی اٹھانی تھی
عجب باتیں کھٹکتی ہیں، مجھے بے چین رکھتی ہیں
میری سانسیں اَٹکتی ہیں، مجھے بے چین رکھتی ہیں
محبت مر چُکی لیکن ، دل و دماغ میں اب تک
تیری یادیں بھٹکتی ہیں، مجھے بے چین رکھتی ہیں
مسکراؤ بہار کے دن ہیں
گل کھلاؤ بہار کے دن ہیں
دختران چمن کے قدموں پر
سر جھکاؤ بہار کے دن ہیں مزید پڑھیں […]