چہرے پہ میرے زلف کو پھیلاؤ کسی دن
چہرے پہ میرے زلف کو پھیلاؤ کسی دن
کیا روز گرجتے ہو برس جاؤ کسی دن
رازوں کی طرح اترو میرے دل میں کسی شب
دستک پہ میرے ہاتھ کی کھل جاؤ کسی دن
پیڑوں کی طرح حسن کی بارش میں نہالوں
بادل کی طرح جھوم کے گھِر آؤ کسی دن
چہرے پہ میرے زلف کو پھیلاؤ کسی دن
کیا روز گرجتے ہو برس جاؤ کسی دن
رازوں کی طرح اترو میرے دل میں کسی شب
دستک پہ میرے ہاتھ کی کھل جاؤ کسی دن
پیڑوں کی طرح حسن کی بارش میں نہالوں
بادل کی طرح جھوم کے گھِر آؤ کسی دن
جب سے اس نے شہر کو چھوڑا ہر رستہ سنسان ہوا
اپنا کیا ہے سارے شہر کا اک جیسا نقصان ہوا
یہ دل یہ آسیب کی نگری مسکن سوچوں وہموں کا
سوچ رہا ہوں اس نگری میں تو کب سے مہمان ہوا
جب دہر کے غم سے اماں نہ ملی، ہم لوگوں نے عشق ایجاد کیا
کبھی شہر بتاں میں خراب پھرے، کبھی دشتِ جنوں آباد کیا
کبھی بستیاں بن، کبھی کوہ و دمن، رہا کتنے دنوں یہی جی کا چلن
جہاں حسن ملا وہاں بیٹھ رہے، جہاں پیار ملا وہاں صاد کیا
یہ اور بات تیری گلی میں نہ آئیں ہم
لیکن یہ کیا کہ شہر ترا چھوڑ جائیں ہم
مدت ہوئی ہے کوئے بتاں کی طرف گئے
آوارگی سے دل کو کہاں تک بچائیں ہم
یوں ہی انتظار کرتا رہا اور وقت ڈھلتا رہا
میرے انتظار کا سورج ہر لمحہ پگھلتا رہا
طے تو یہ ہوا تھا كے پائیں گے ایک ہی منزل
بیچ راہ میں وہ مکر گیا سوئے منزل میں چلتا رہا
وہ جو دودھ شہد کی کھیر تھی
وہ جو نرم مثلِ حریر تھی
وہ جو آملے کا اچار تھا
وہ جو ہم میں تم میں قرار تھا
تمھیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
سنو
محبت یوں نہیں ہوتی
کسی کا نام لینے سے
کسی کو تھام لینے سے
کسی كے پاس جانے سے
کسی كے دور جانے سے
محبت کا جنم نہیں ہوتا
جب تک دلوں کا ملن نہیں ہوتا
ہم نے دیکھی ہے ان آنکھوں کی مہکتی خوشبو
ہاتھ سے چھو کے اسے رشتوں کا الزام نہ دو
صرف احساس ہے یہ روح سے محسوس کرو
پیار کو پیار ہی رہنے دو کوئی نام نہ دو