دینا پڑے کچھ ہی ہرجانہ سچ ہی لکھتے جانا

دینا پڑے کچھ ہی ہرجانہ سچ ہی لکھتے جانا
مت گھبرانا مت ڈر جانا سچ ہی لکھتے جانا
باطل کی منہ زور ہوا سے جو نہ کبھی بجھ پائیں
وہ شمعیں روشن کر جانا سچ ہی لکھتے جانا
دینا پڑے کچھ ہی ہرجانہ سچ ہی لکھتے جانا
مت گھبرانا مت ڈر جانا سچ ہی لکھتے جانا
باطل کی منہ زور ہوا سے جو نہ کبھی بجھ پائیں
وہ شمعیں روشن کر جانا سچ ہی لکھتے جانا
نیت شوق بھر نہ جائے کہیں
تو بھی دل سے اتر نہ جائے کہیں
آج دیکھا ہے تجھ کو دیر کے بعد
آج کا دن گزر نہ جائے کہیں
چمکتے لفظ ستاروں سے چھین لائے ہیں
ہم آسماں سے غزل کی زمین لائے ہیں
وہ اور ہوں گے جو خنجر چھپا کے لاتے ہیں
ہم اپنے ساتھ پھٹی آستین لائے ہیں
دل کی بات لبوں پر لا کر اب تک ہم دکھ سہتے ہیں
ہم نے سنا تھا اس بستی میں دل والے بھی رہتے ہیں
بیت گیا ساون کا مہینہ، موسم نے نظریں بدلیں
لیکن ان پیاسی آنکھوں سے اب تک آنسو بہتے ہیں
تو نے دیکھا ہے کبھی ایک نظر شام کے بعد
کتنے چپ چاپ سے لگتے ہیں شجر شام کے بعد
اتنے چپ چاپ کہ رستے بھی رہیں گے لا علم
چھوڑ جائیں گے کسی روز نگر شام کے بعد
کسی سے اپنا یارانہ نہیں رہا
یہاں کوئی یار پرانا نہیں رہا
خانہ بدوشوں جیسی ہے زندگانی
کسی دل میں اب ٹھکانا نہیں رہا
محبت میں ایسی چوٹ کھائی ہوئی ہے
غم ہیں ساتھی خوشی پرائی ہوئی ہے
سوچتے ہیں كے اب ہَم کدھر جائیں گے
کسی اور دِل میں نہ جگہ بنائی ہوئی ہے
صنم پوچھتا نہیں حال میرا
جینا ہوا جاتا ہے محال میرا
کبھی میرے بھی دن بدلیں گے
کسی دن اسے آئے گا خیال میرا