آخر دعا کریں بھی تو کس مدعا كے ساتھ

آخر دعا کریں بھی تو کس مدعا كے ساتھ
کیسے زمیں كے بات کہیں آسمان سے ہم
آخر دعا کریں بھی تو کس مدعا كے ساتھ
کیسے زمیں كے بات کہیں آسمان سے ہم
کمی کمی سی تھی کچھ رنگ و بوئے گلشن میں
لب بہار سے نکلی ہوئی دعا تم ہو
جب بھی کشتی مری سیلاب میں آ جاتی ہے
ماں دعا کرتی ہوئی خواب میں آ جاتی ہے
ابھی زندہ ہے ماں میری مجھے کچھ بھی نہیں ہوگا
میں گھر سے جب نکلتا ہوں دعا بھی ساتھ چلتی ہے
جو زہر پی چکا ہوں تمہیں نے مجھے دیا
اب تم تو زندگی کی دعائیں مجھے نہ دو
سفر کے واسطے کچھ اسباب آج دے ڈالو
بہت سی دعائیں اور نئے خواب دے ڈالو
میرے غموں نے میرے چراغوں کو بجھا رکھا ہے
راہ میں روشنی كے لیے کچھ ماہتاب آج دے ڈالو
گواہی کیسے ٹوٹتی معاملہ خدا کا تھا
مرا اور اس کا رابطہ تو ہاتھ اور دعا کا تھا