ہر دھڑکتے پتھر کو لوگ دل سمجھتے ہیں

ہر دھڑکتے پتھر کو لوگ دل سمجھتے ہیں
عمریں بیت جاتی ہیں دل کو دل بنانے میں
ہر دھڑکتے پتھر کو لوگ دل سمجھتے ہیں
عمریں بیت جاتی ہیں دل کو دل بنانے میں
او دل توڑ کے جانے والے دل کی بات بتاتا جا
اب میں دل کو کیا سمجھاؤں مجھ کو بھی سمجھاتا جا
سلامت چاہتے ہو دِل تو اِتنی بات مانو گے
تُمہیں لینا پڑے جو فیصلہ وہ زہن سے لو گے
پتا کیا وقت کیسا کھیل کھیلے، ہم بِچھڑ جائیں
کہاں ہوں گے نجانے ہم، نجانے تُم کہاں ہو گے
ہم لبوں سے کہہ نہ پائے ان سے حال دل کبھی
اور وہ سمجھے نہیں یہ خامشی کیا چیز ہے
دوستوں سے اس قدر صدمے اٹھائے جان پر
دل سے دشمن کی عداوت کا گلہ جاتا رہا
اک دن تو لپٹ جائے تصور ہی سے تیرے
یہ بھی دل نامرد کو جرأت نہیں ملتی
دل بھی پاگل ہے کہ اس شخص سے وابستہ ہے
جو کسی اور کا ہونے دے نہ اپنا رکھے
سُکوں وہ لے گیا تھا ساتھ، اب آرام کھو بیٹھے
یہ کِس سے پڑ گیا پالا کہ دِل سے ہاتھ دھو بیٹھے
پریشاں ڈُھونڈتے پِھرتے ہیں بچّے بُوڑھے بابا کو
اُدھر وقتوں کے قِصّوں میں ہیں گُم سُم یار دو بیٹھے
بڑوں کے فیصلوں کو ٹال کر کرتے تھے من مانی
ابھی ہم رو رہے ہیں دوستو تقدِیر کو بیٹھے
"نشِستیں تو نہیں ہوتی ہیں بزمِ یار میں مخصُوص”
کہاں اُٹھتے ہیں قُربِ یار میں اِک بار جو بیٹھے
رِہائی زلف سے محبوب کی ہم نے تو پالی تھی
نہیں تھی اُٹھ کے جانے کی ذرا بھی تاب، سو بیٹھے
کِسی نے لوٹ آنے میں ذرا سی دیر کر ڈالی
پلٹ آیا ہے وہ، ہم جس گھڑی اوروں کے ہو بیٹھے
ابھی تک یاد آتا ہے بِچھڑنے کا کوئی منظر
بہت چاہا کریں ہم ضبط، پر آنکھیں بِھگو بیٹھے
کھڑے ہم ایک مُدّت دل کے زخموں کے مداوے کو
اُٹھا ارمان کا اِک نا روا طُوفان تو بیٹھے
رشید حسرتؔ جہاں تک زِندگی ہے، آرزُوئیں ہیں
یہاں ہم اُٹھ گئے اے دوستو ارمان وہ بیٹھے
رشید حسرتؔ