جسے خود سے نہیں فرصتیں ، نہ جسے خیال اپنے جمال کا

جسے خود سے نہیں فرصتیں ، نہ جسے خیال اپنے جمال کا
اسے کیا خبر میرے شوق کی اسے کیا پتہ میرے حال کا
جسے خود سے نہیں فرصتیں ، نہ جسے خیال اپنے جمال کا
اسے کیا خبر میرے شوق کی اسے کیا پتہ میرے حال کا
اس نے اپنی خوشی کی خاطر میرے دِل كے ٹکڑے ٹکڑے کر دیئے
لیکن خود ہی رو پڑا ہر ٹکڑے پہ اپنا نام دیکھ کر
اس نے یہ سوچ کر ہمیں الوداع کہہ دیا محسن
یہ غریب لوگ ہیں محبت كے سوا کیا دیں گے
دِل میں افسوس آنكھوں میں نمی سی رہتی ہے
زندگی میں شاید کوئی کمی سی رہتی ہے
مجھ سے روٹھ جاتے ہیں اکثر اپنے وصی
شاید میرے خلوص میں کوئی کمی سی رہتی ہے
رات ہے اندھیری بہت اک دیا ہی جلا دے کوئی
میں برسوں کا جاگا ہوں مجھے سلا دے کوئی
اب کوئی مجھ کو دلائے نہ محبت کا یقین
جو مجھ کو بھول نہ سکتا تھا وہی بھول گیا
آئے تو یوں كے ہمیشہ تھے مہربان
بھولے تو یوں كے گویا کبھی آشْنا نہ تھے